Bilal

کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ کامیابی اور ناکامی کا فرق کیسے کیا جائے اور یہ کیسے پتہ چلے کہ نمبر1 والا کون ہے

 

کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ

کامیابی اور ناکامی کا فرق کیسے کیا جائے اور یہ کیسے پتہ چلے کہ نمبر1 والا کون ہے


کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ کامیابی  اور ناکامی     کا فرق کیسے کیا جائے اور یہ کیسے پتہ چلے کہ نمبر1 والا کون ہے
کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ کامیابی  اور ناکامی     کا فرق کیسے کیا جائے اور یہ کیسے پتہ چلے کہ نمبر1 والا کون ہے

خالق کائنات نے فرمایا کہ

قسم ہے، زمانے کی انسان خسارے میں ہے۔مگر(سوائے ان   لوگوں کے جو ایمان لائے، اور انہوں نے اچھے کام کیے،آپس میں تاکید کرتے رہےسچے دین کی،اور تاکید کرتے ہے صبروتحمل کی

یہ تو حقیقت ہے کہ کامیابی یا ناکامی  کا  کوئی ایسا پیما نہ نہیں  کہ جس پر سب لوگ  متفق ہوں اور نہ ہی ہم کوئی ایسی لائن  یا راستہ  بتاسکتے  ہیں ماسواے اس کے جوخالق کائنات   نے متعین  کیا ہے۔

  علامہ اقبال نے اسی  کو اس انداز میں کہا  ہے کہ ۔

            تو شاہیں ہے،پروازہے کام تیرا

                                                                                                                 تیرے سامنے ٓسماں اور بھی ہیں

اور اسی طرح

    نہیں تیرا نشیمن  قصر سلطانی  کے گنبد  پر

                                                                                       تو  شاہیں ہے کر بسیرا  پہاڑوں کی چٹانوں پر

علامہ اقبال کس شاہین کو ، کس  انسان کو  یہ پیغام دے  رہے ہیں  وہ  آپ  اور میں ہی  ہیں۔حرکت میں برکت کے مصداق ہمیں  نئی  منزلو  ں  نئے راستوں  پر   چلنی  کی  دعوت اقبال  نے دی  ہے۔ وہ راستہ اور  منزل  کوئی اور  نہیں   بلکہ  وہ  راستہ  ہے جس   کا   حکم   خالق کائنات   نے دیا  اور اسی کی یاد دہانی اقبال  نے کروائی   ہے،

 ہم زندگی کے اصل مقصد کو بھول چکے ہیں  ہر  کسی نے اپنی  اپنی خواہشات کو ضروریات کا نام دے دیا ہے۔ہر کوئی اپنی خواہش یا مرضی کے مطابق کسی بھی منزل کا تعین کرنے کے بعد اس کے حصول میں سرگرداں نظر آتا ہے اور اگر اس کو کو اپنی مرضی  ،خواہش میں  کامیابی ملتی ہے تو وہ  خوش  ورنہ مایوس اور نا امید ہو  جاتا ہے۔

ہم میں  سے ہر کوئی اپنی مرضی سے ایک منزل کا تعین کرتا ہے اور اس پر چل پڑتا ہے اور اگر کسی وجہ سے ،کسی بھی وجہ سے وہ مجبو  ہو  کر  یاکسی بیماری کی وجہ سے یا  کسی  دکھ تکلیف پریشانی کی وجہ سے یا   مالی مسائل کی وجہ سے یا کاروباری نقصان کی وجہ سے

 ا لغرض کسی بھی وجہ سے اگر اس کو اپنا رستہ، اپنا مقصد،اپنا کاروبار، اپنی خواہش یا اپنی سوچ کو بدلنا پڑتا ہے تو وہ  اس کو اپنی ناکامی سمجھتا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے اس بات کو سمجھا جائے کہ وہ کون ہے جو اس کو اس راستے سے جس پر وہ چلنا چاہتا ہے اس سے بار بار ہٹا کر دوسرے راستے کی طرف لے جا  رہا ہے ۔اس کا مطلب کوئی ایسی طاقت ضرور ہے جس کو میں یا آ ٓپ دیکھ نہیں سکتے لیکن وہ ایسا تعلق ضرور ہے جو ہمیں  اس راستے پہ جانے نہیں دے رہی ۔ وہ جو طاقتو  ہے ،  کون ہے، وہ خالق ہے ، وہ ما لک ہے جس نے  ہمیں اس دنیا میں بھیجا ۔اب ہمیں سمجھنا یہ چاہیے کہ جن حالات میں بھی کوئی ہے وہ دکھ میں ہے پریشانی میں ہے بیماری میں جس بھی حالت میں ہے    ، اس کو اسی حالت   میں رہتے ہوئے غور کرنا ہے کہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر وہ اس پریشانی سے نکل سکتا ہے

کبھی بھی مایوسی نا امیدی، پریشانی انسان کو مشکلات سے نہیں نکالتی صرف ایک امید ہوتی ہے انسان کو   نیا    راستہ  دکھاتی ہیں اور امید کا دامن تھام کر ہی انسان کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ امید کے بغیر انسان کا وجود ہی نامکمل ہے اب انسان تو ہے خواہشات  کا  پجاری ،مشاہدات کی بنیاد پر، اپنی دلچسپی کی بنیاد پر مختلف کام کرتا رہتا ہے وہ تعلیم ہو، وہ کاروبار ہو، اس کا کھانا پینا ہو ۔

اب اس میں کوئی حیرانی یا پریشانی والی بات نہیں ہے نہ ہی کوئی ایسی سائنس ہیں جو کسی کو سمجھ نہ آئے میں اس کی   ایک مثال دیتا ہوں آپ   سب  اس بات پر اتفاق کریں گے۔کہ ہمارے  انگوٹھوں  کے نشانات نادرا کے پاس موجود ہیں کسی اور ملک میں رہتا تو وہاں کا نظام اپنا شناخت کا نظام  ہو گا  ۔ ہر کسی   کے  نشانات  دوسرے سے مختلف ہیں ۔اور ان کی اتنی اہمیت ہے  کہ آ ٓپ   نے بینک   اکاؤنٹ بنانا ہو ، موبائل کی کوئی سم   لینی ہو   ہر جگہ  پر انگوٹھوں  کے نشانات   سے ہی   کا م  چل  رہا    ہے۔  اسی طرح سے سے آواز کو دیکھ لیں تھوڑا بہت فرق ہے کبھی بھی آپ مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے ناامید ہو جائیں  یا   مایوس ہو جائیں ۔ انسان   صرف    ظاہر ی   معاملات کو دیکھتا ہےجو اس کو     نظر آتا ہے وہ اسی کو درست  سمجھتا ہے حالانکہ غور کریں   اگر   ٓپ دھوپ میں   جا رہےرہے ہوں تو راستے میں دور آپ کو سڑک  چمکتی ہوئی نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے وہاں پر پانی موجود ہے لیکن حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتا ہے اسی  کی مانند زندگی ہے ۔ ہمیں

مثبت انداز میں آگے چلتے رہنا ہے ۔

اس طرح  کامیابی یا ناکامی  ،خوشی یا مایوسی دونوں میں اعتدال کا دامن نہ چھوڑیں  اور امید کا  دامن پکڑ  کر    زندگی  کے اس بظاہر  لمبے لیکن  حقیقت  میں  مختصر  سفر  کو  ہنسی  خوشی جاری  رکھیں۔

تحریر:  عمران علی ستی

Post a Comment

0 Comments