Bilal

Wakaltan urdu coloumn motivational topic


 وکالتاں


ہر  شاخ پہ الو بیٹھا ہے  انجام گلستان کیا  ہوگا۔


wakaltan-Blog Blog Urdu
Colomn Urdu-colomn wakaltan Blog  Urdu

ہر انسان اپنی خواہش کا غلام ہے ۔ یہ ایک  تلخ حقیقت  ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ماسوائے ان کے جنہوں نے حقیقت کو  نا ماننے کی  قسم کھائی ہوئی ہے۔ اور وہ صرف اپنی مرضی کا سچ اور انصاف ہی پسند کرتے ہیں۔اور ہر  کوئی  صرف  اپنی ہی وکالت  کر  رہا  ہے۔

انصاف کی مسندوںپر بیٹھے لوگ، حکومتی  عہدیدار، عام شہری الغرض ہر  جگہ پر   لوگ زیادہ لیکن انسان کم ہیں۔ہر کوئی اپنے اسی عہدے،منصب ، مقام ،مرتبے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے سے عاری ہے۔  جس    پر   وہ  فائز ہے۔   اور اپنی مرضی کا  سچ سننا چاہتا ہے۔ معاشرے کی اکژیت ہر اس عمل کو بہتر اور جائز سمجھتی ہے۔ جس سے ان  کافائدہ ہوتاہے لیکن    دوسروں کے لئیے خواہ ان کا جائز قانونی ، اخلاقی جواز ہی کیوں موجودنہ ہو اس کے راستے میں روڑے اٹکانا ہر کوئی اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔

آج کل ہرکو ئی  جو دو  دن عدالتوں کے چکر لگا لے وہ اپنے آپ کو سینئر ترین وکیل اور  جو  وکالت  کا  لائیسنس لے کر  مسلسل دو سال رٹے لگا کر جج لگ جائے وہ اپنے آپ کو  عقل کل ، اور وہ جو  مسلسل وکالت کے بعد براہ راست  سب سے بڑا جج لگ   بلکہ  یوں کہیں  لگا دیا  جائے    اور  وہ  جس   کو  اس  کے محلے  میں ادھار دینے کو    کوئی      تیار نہ  ہو  اس کو  کسی  مسند خواہ  وہ   دو لوگوں  کے  درمیان بطور ثالث  ہو     ،الغرض  ہر کوئی  اپنے ہی منصب کی بے توقیری  کرنے میں اپنی مثال آپ ہے۔

اب  آپ یہ ایک  خط یا  درخواست دیکھ لیں  کہ متعلقہ بار چیخ چیخ کر  کہ  رہی ہے کہ  خدا کے   لیے اس  انصاف کے  مینار  کو اس کی جگہ سے ہٹایا جائے۔ اور انہوں نے چیف جسٹس کے  نام درخواست بھی لکھی ہے،۔ یہ بات سچی ہے یا نہیں  کوئی اس پر  توجہ نہیں کر  رہا۔ جب کوئی  واقعہ ہو گا تو  ہر  شاخ سے  الو بولے گا۔

Colomn Urdu-colomn wakaltan Blog  Urdu-Blog
Colomn Urdu-colomn wakaltan Blog  Urdu-Blog
رات کے  اندھیرے میں وکلا کے چیمبر  گرائے گئے کیا  وہ ایک  دن میں بن گئے تھے۔  مسلسل  وکلا  گذارش کررہے تھے  کہ ان کے  اس مسئلے کا  کوئی  حل نکالا جائے لیکن  جان بوجھ کر  ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داریوں کی بجائے  اپنی ذات میں مگن ہے۔  اب ایک طرف   توہین عدالت کا نوٹس ، دوسری طرف   دہشتگردی کا  پرچہ   چل رہا ہے۔

اب پولیس  روایتی طریقہ کار اختیار  کرتے ہوئے وہی طریقہ  اختیار کر ہی ہے جو  اس سے  پہلے   کرتی   رہی ہے۔ چادر چار دیواری کا تقدس  پامال ہو رہا ہے ۔ پولیس کی  ٹیمیں تشکیل پا  چکی ہیں۔وکلا کو   دہشت گردوں کی  طرح   گرفتار  کیا جا رہا ہے۔ نا  کوئی  سرچ ورنٹ  نا   کوئی   قانونی  تقاضا پورا کیا   جا رہا  ہے۔ متواتر   ظلم  زیادتی  کی  خبریں ہیں۔ جن کی ذمہ داری ہے۔ وہ خاموش ہیں ۔ اورجن کا دوردورتک اس معاملے کوئی تعلق نہیں وہ اپنی اپنی بین بجائےجارہےہیں۔


ضرورت  اس  بات  کی ہے کہ معاملے کی  نذاکت کو سمجھا  جائے۔  اورحالات کا باریک بینی  سے جائزہ لے  کر ایسا  لائحہ عمل ترتیب  دیا  جائے تا  کہ  آئندہ  ایسا واقعہ دوبارہ نہ   ہو   وگرنہ   پھر    صورتحال یہ ہے کہ

شاعر سے معذرت  کے ساتھ

ہرشاخ پہ الوبیٹھا ہے انجام گلستان کیاہو گا۔

Post a Comment

0 Comments