Bilal

شکر اور کم ظرف لوگ


شکر  اور  کم ظرف لوگ

شکر   اور  کم ظرف لوگ
 شکر  اور  کم ظرف لوگ 
جب سے  دنیا  بنی ہے  ۔ہر  فرد   اس کے متعلق زیادہ  سے زیادہ جاننے کی کوشش میں ہے۔ اور پھر اس کو اس کو دوسروں کے لیے مفید بنانے کی کوشش کرتاہے،    لیکن اسی کے ساتھ ساتھ لوگ صرف اپنا ہی الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان کو کسی دوسرے کی فکر نہیں ہے۔ وہ جب اس جہاں سے جاتے ہیں تو ان کے تمام اثاثے  ادھرہی رہ جاتے پیں اور جن کے لیے یہ  سب وہ کرتے ہیں وہ ان کو اسی طرح بھلا دیتے ہیں جس طرح وہ اہنا مقصد حیات بھلا کر زندگی گذارتے ہیں۔اپنی ابتدا اور انتہا پر غور کریں۔

 ہر کویؐ اندر سے اور، باہر سے اور   لیکن اب بس کیجیے  لیکن اب خدا کے لیے بس کیجیے اور اللہ اللہ کریں۔
کم ظرف نہ بنیں بلکہ اس ذات کے شکر گذار بنیں جس ہیمں سب کچھ یعنی وہ بھی  جس کے ہم اہل نہیں عطا کیا۔ 
شکر  اور  کم ظرف لوگ
 شکر  اور  کم ظرف لوگ شکر  اور  کم ظرف لوگ



وسعت بحر عشق کیا کہیے 

ابتدا ہو تو انتہا کہیے 

تیرے جور و جفا کو کیا کہیے 

ناز کہیے انہیں ادا کہیے 

اس ستم گر کو اور کیا کہیے 

سارے جھوٹوں کا پیشوا کہیے 

پوچھنا چاہیے طبیبوں سے 

درد دل کی ہے یہ دوا کہیے 

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں 

کچھ سمجھ کر برا بھلا کہیے 

غیروں کے سامنے بلا کے مجھے 

کہتے ہیں دل کا مدعا کہیے 

نہ کوئی یار ہے نہ ہے غم خوار 

کس سے اب دل کا ماجرا کہیے 

پیتے ہیں جو شراب مسجد میں 

ایسے لوگوں کو پارسا کہیے 

شرم کیا ہے مجھے جو کہنا ہو 

سامنے سب کے برملا کہیے 

وہ جفا گر فلک ستم گر ہے 

کسے اچھا کسے برا کہیے 

غیر ساتھ آپ کے مزے لوٹیں 

ہم اٹھائیں جفائیں کیا کہیے 

بھول کر لے گیا سوئے منزل 

ایسے رہزن کو رہنما کہیے 

چار اگر یار ہیں تو دس دشمن 

راز دل کا نہ جا بہ جا کہیے 

جان سے گر گیا کوئی عاشق 

عشق کی اس کو ابتدا کہیے 

کیا یہی شرط ہے محبت کی 

بے وفاؤں کو با وفا کہیے 

شیخ پیتے ہیں جو مئے الفت 

اس کو کس طرح ناروا کہیے 

دل کا سینہ کا اور جگر کا حال 

ہے یہ واجب جدا جدا کہیے 

حال سنتے نہیں مرا نہ سنو 

اپنے دل کا تو ماجرا کہیے 

مشرقیؔ چھوڑیئے بتوں کا ذکر 

صبح اٹھ کر خدا خدا کہیے

اللہ پاک سب کا حمی و ناصر  ہو۔

تحریر 
عمران علی  ستی    

Post a Comment

0 Comments